دل نے سینے میں تڑپ کر اُنھیں جب یاد کیا
دل نے سینے میں تڑپ کر اُنھیں جب یاد کیا
در و دیوار کو آمادۂ فریاد کیا
وصل سے شاد کیا ، ہجر سے ناشاد کیا
اُس نے جس طرح سے چاہا مجھے برباد کیا
تم مرے رونے پہ روئے ستم ایجاد کیا
عشق کی روح کو آمادۂ فریاد کیا
صبر دو دن نہ ہوا ، روئے بہت یاد کیا
اب نہ کہنا یہ زباں سے تجھے آزاد کیا
لاکھ جانیں ہوں تو پھر اُن پہ تصدق کردوں
وہ یہ فرمائیں کہ ہم نے اسے برباد کیا
کیا طریقہ ہے یہ صیّاد کا اللہ اللہ
ایک کو قید کیا ، ایک کو آزاد کیا
ہم کو دیکھ او غمِ فرقت کے نہ سننے والے
اس برے حال میں بھی ہم نے تجھےیاد کیا
اور کیا چاہیئے سرمایۂ تسکیں اے دوست
اک نظر دل کی طرف دیکھ لیا شاد کیا
شرحِ نیرنگئ اسباب کہاں تک کیجئے
مختصر یہ کہ ہمیں آپ نے برباد کیا
پردۂ شوق سے اک برق تڑپ کر نکلی
یاد کرنے کی طرح سے انھیں جب یاد کیا
مہرباں ہم پہ رہی چشمِ سخن گو ان کی
جب ملی آنکھ نگاہوں نے کچھ ارشاد کیا
دل کا کیا حال کہوں جوشِ جنوں کے ہاتھوں
اک گھروندا سا ، بنایا ، کبھی برباد کیا
اب سے پہلے تو نہ تھا ذوقِ محبت رسوا
شاید اُن مست نگاہوں نے کچھ ارشاد کیا
عشق کیوں سوگ مناتا یہ خوشی کیا کم ہے
دل یہ جس کا تھا اُسی نے اسے برباد کیا
بددُعا تھی ، کہ دُعا ، کچھ نہیں کھلتا لیکن
چپکے چپکے ، لبِ نازک نے کچھ ارشاد کیا
جُرمِ مجبورئ بے تاب ، الٰہی توبہ
یہ بھی اک بے ادبی تھی کہ تجھے یاد کیا
موت ، اک دامِ گرفتارئ تازہ ہے جگرؔ
یہ نہ سمجھو ، کہ غم ِ عشق نے آزاد کیا
جگرؔ مراد آبادی