ملال ہے مگر اتنا ملال تھوڑی ہے
ملال ہے مگر اتنا ملال تھوڑی ہے
یہ آنکھ رونے کی شدت سے لال تھوڑی ہے
بس اپنے واسطے ہی فکر مند
ہیں سب لوگ
یہاں کسی کو کسی کا خیال تھوڑی ہے
پروں کو کاٹ دیا ہے اُڑان سے
پہلے
یہ خوف ِہجر ہے ، شوقِ وصال تھوڑی ہے
مزا تو جب ہے کہ تم جان بوجھ کر ہارو
ہمیشہ جیت ہی جانا
کمال تھوڑی ہے
لگانی پڑتی ہے ڈبکی اُبھرنے
سے پہلے
غروب ہونے کا مطلب زوال تھوڑی ہے
پروین
شاؔکر
No comments:
Post a Comment