اور تو کوئی بس نہ چلے گا ہجر کے درد کے ماروں کا
اور تو کوئی بس نہ چلے گا ہجر کے درد کے ماروں کا
صبح کا ہونا دوبھر کردیں رستہ روک ستاروں کا
جھوٹے سِکّوں میں بھی اٹھا دیتے ہیں یہ اکثر سچا مال
شکلیں دیکھ کے سودے کرنا کام ہے ان بنجاروں کا
اپنی زباں سے کچھ نہ کہیں گے چُپ ہی رہیں گے عاشق لوگ
تم سے تو اتنا ہوسکتا ہے پوچھو حال بچاروں کا
جس جپسی کا ذکر ہے تم سے دل کو اسی کی کھوج رہی
یوں تو ہمارے شہر میں اکثر میلا لگا نگاروں کا
ایک ذرا سی بات تھی جس کا چرچا پہنچا گلی گلی
ہم گمناموں نے پھر بھی احسان نہ مانا یاروں کا
درد کا کہنا چیخ ہی اُٹھو ، دل کا کہنا ، وضع نبھاؤ
سب کچھ سہنا چپ چپ رہنا کام ہے عزّت داروں کا
انشاؔ جی اب اجنبیوں میں چین سے باقی عمر کٹے
جن کی خاطر بستی چھوڑی نام نہ لو ان پیاروں کا
ابنِ انشاؔ
No comments:
Post a Comment