کیا فرق داغ و گل میں ، اگر گل میں بو نہ ہو
کیا فرق داغ و گل میں ، اگر گل میں بو نہ ہو
کس کام کا وہ دل ہے کہ جس دل میں تو نہ ہو
ہووے نہ حول و قوت اگر تیری درمیاں
جو ہم سے ہوسکے ہے ، سو ہم سے کبھو نہ ہو
جو کچھ کہ ہم نے کی ہے تمنّا ، ملی ، مگر
یہ آرزو رہی ہے کہ کچھ آرزو نہ ہو
جوں شمع جمع ہوویں گر اہل زباں ہزار
آپس میں چاہیے کہ کبھو گفتگو نہ ہو
جوں صبح ، چاکِ سینہ مرا ، اے رفو گراں
یاں تو کسو کے ہاتھ سے ہرگز رفو نہ ہو
اے درؔد ! زنگِ صورت اگر اس میں جا کرے
اہلِ صفا میں آئنۂ دل کو رُو نہ ہو
خواجہ میر درؔد دہلوی
No comments:
Post a Comment