2016-04-01

Sar e sehra musafir ko sitara yad rehta hai

سرِ صحرا مسافر کو ستارہ  یاد رہتا ہے

سرِ صحرا مسافر کو ستارہ یاد رہتا ہے
میں چلتا ہوں مجھے چہرہ تمہارا یاد رہتا ہے
تمہارا ظرف ہے تم کو محبت بھول جاتی ہے
ہمیں تو جس نے بھی ہنس کر پکارا یاد رہتا ہے
محبت اور نفرت اور تلخی اور شیرینی
کس نے کس طرح کا پھول مارا یاد رہتا ہے
محبت میں جو ڈوبا ہو اسے ساحل سے کیا لینا
کسے اس بحر میں جا کر کنارا یاد رہتا ہے
بہت لہروں کو پکڑا ڈوبنے والے کے ہاتھوں نے
یہی بس ایک دریا کا نظارہ یاد رہتا ہے
صدائیں ایک ہی یکسانیت میں ڈوب جاتی ہیں
ذرا سا مختلف جس نے پکارا یاد رہتا ہے
                     عدؔیم ہاشمی

No comments:

Post a Comment