میری زندگی تو فراق ہےوہ ازل سے دل میں مکیں سہی
میری زندگی تو فراق ہے وہ ازل سے دل میں مکیں سہی
وہ نگاہِ شوق سے دور ہے، رگِ جاں سے لاکھ قریں سہی
ہمیں جان دینی ہے ایک دن، وہ کسی طرح وہ کہیں سہی
ہمیں آپ کھینچیے دار پر جو نہیں کوئی ، تو ہمیں سہی
غمِ زندگی سے فرار کیا، یہ سکون کیوں، یہ قرار کیا
غمِ زندگی بھی ہے زندگی، جو نہیں خوشی تو نہیں سہی
سرِ طور ہو ، سرِ حشر ہو، ہمیں انتظار قبول ہے
وہ کبھی ملیں، وہ کہیں ملیں، وہ کبھی سہی، وہ کہیں سہی
مجھے بیٹھنے کی جگہ ملے ، تیری آرزو کا بھرم رہے
تیری انجمن میں اگر نہیں، تیری انجمن سے قریں سہی
تیرا در تو ہم کو نہ مل سکا، تیری رہگزر کی زمیں سہی
ہمیں سجدہ کرنے سے کام ہے، وہ وہاں نہیں تو یہیں سہی
میری زندگی کا نقیب ہے ، نہیں دور مجھ سے قریب ہے
مجھے اس کا غم تو نصیب ہے، وہ اگر نہیں تو نہیں سہی
نہ ہو ان پہ جو میرا بس نہیں کہ یہ عاشقی ہے ہوس نہیں
تیری انجمن میں اگر نہیں، تیری انجمن سے قریں سہی
تیرا در تو ہم کو نہ مل سکا، تیری رہگزر کی زمیں سہی
ہمیں سجدہ کرنے سے کام ہے، وہ وہاں نہیں تو یہیں سہی
میری زندگی کا نقیب ہے ، نہیں دور مجھ سے قریب ہے
مجھے اس کا غم تو نصیب ہے، وہ اگر نہیں تو نہیں سہی
نہ ہو ان پہ جو میرا بس نہیں کہ یہ عاشقی ہے ہوس نہیں
میں انہیں کا تھا میں انہیں کو ہوں وہ میرے نہیں تو نہیں سہی
جو ہو فیصلہ وہ سنائیے، اسے حشر پر نہ اٹھائیے
جو کریں گے آپ ستم وہاں، وہ ابھی سہی، وہ یہیں سہی
انہیں دیکھنے کی جو لَو لگی جو نصیرؔ دیکھ ہی لیں گے ہم
وہ ہزار آنکھ سے دور ہوں ہو ہزار پردہ نشیں سہی
انہیں دیکھنے کی جو لَو لگی جو نصیرؔ دیکھ ہی لیں گے ہم
وہ ہزار آنکھ سے دور ہوں ہو ہزار پردہ نشیں سہی
پیر نصیر الدین نصیرؔ
No comments:
Post a Comment