انکار نہ اقرار بڑی دیر سے چُپ ہیں
انکار نہ اقرار بڑی دیر سے چُپ ہیں
کیا بات ہے سرکار بڑی دیر سے چُپ ہیں
آسان نہ کردی ہو کہیں موت نے مشکل
روتے ہوئے بیمار بڑی دیر سے چُپ ہیں
اب کوئی اشارہ ہے نہ پیغام نہ آہٹ
بام و در و دیوار بڑی دیر سے چُپ ہیں
ساقی یہ خموشی بھی تو کچھ غور طلب ہے
ساقی ترے میخوار بڑی دیر سے چُپ ہیں
یہ برق نشیمن پہ گری تھی کہ قفس پر
مرغانِ گرفتار بڑی دیر سے چُپ ہیں
اِس شہر میں ہر جنس بنی یوسفِ کنعاں
بازار کے بازار بڑی دیر سے چُپ ہیں
احمد فراؔز
No comments:
Post a Comment