2016-04-21

Darwaza jo khole to nazar aaye khare wo

دروازہ جو کھولا تو نظر آئے کھڑے وہ

دروازہ جو کھولا تو نظر آئے کھڑے وہ
حیرت ہے مجھے ، آج کدھر بھول پڑے وہ
بھولا نہیں دل ، ہجر کے لمحات کڑے وہ
راتیں تو بڑی تھیں ہی ، مگر دن بھی بڑے وہ
کیوں جان پہ بن آئی ہے بگڑا ہے اگر وہ
اس کی تو یہ عادت کہ ہواؤں سے لڑے وہ
الفاظ تھے اس کے کہ بہاروں کے پیامات
خوشبو سی برسنے لگی ، یوں پھول جھڑے وہ
ہر شخص مجھے ، تجھ سے جدا کرنے کا خواہاں
سن پائے اگر ایک تو دس جا کے جڑے وہ
بچّے کی طرح چاند کو چھونے کی تمنّا
دل کو کوئی شہ دے دے تو کیا نہ اڑے وہ
طوفاں ہے تو کیا غم ، مجھے آواز تو دیجے
کیا بھول گئے آپ مرے کچے گھڑےوہ
             پروین شاکؔر

Woh akas e mauja e gul tha chaman chaman mein raha

وہ عکسِ موجۂ گل تھا چمن چمن میں  رہا

وہ عکسِ موجۂِ گل تھا چمن چمن میں رہا
وہ رنگ رنگ میں اترا ، کرن کرن میں رہا
وہ نام حاصلِ فن ہوکے میرے فن میں رہا
کہ روح بن کے مری سوچ کے بدن میں رہا
سکونِ دل کے لئے میں کہاں کہاں نہ گئی
مگر یہ دل  ، کہ سدا اس کی انجمن میں رہا
وہ شہر والوں کے آگے کہیں مہذب تھا
وہ ایک شخص جو شہروں سے دور بن میں رہا
چراغ بجھتے رہے اور خواب جلتے رہے
عجیب طرز کا موسم مرے وطن میں رہا

                          پروین شاکؔر

2016-04-20

Dil kis ke tasawur mein jane raaton ko pareshan hota hai

دل کس کے تصور میں جانے راتوں کو پریشاں ہوتا ہے

دل کس کے تصور میں جانے راتوں کو پریشاں ہوتا ہے
یہ حسنِ طلب کی بات نہیں ہوتا ہے مری جاں ہوتا ہے
ہم تیری سکھائی منطق سے اپنے کو تو سمجھا لیتے ہیں
اک خار کھٹکتا رہتا ہے سینے میں جو پنہاں ہوتا ہے
پھر ان کی گلی میں پہنچے گا ، پھر سہو کا سجدہ کرلے گا
اس دل پہ بھروسہ کون کرے ہر روز مسلماں ہوتا ہے
وہ درد کہ اس نے چھین لیا ، وہ درد کہ اس کی بخشش تھا
تنہائی کی راتوں میں انشاؔ اب  بھی مرا مہماں ہوتا ہے
ابنِ انشاؔ

Aur to koi bas na chale ga hijar ke dard ke maron ka

اور تو کوئی بس نہ چلے گا ہجر کے درد کے ماروں کا

اور تو کوئی بس نہ چلے گا ہجر کے درد کے ماروں کا
صبح کا ہونا دوبھر کردیں  رستہ روک  ستاروں کا
جھوٹے سِکّوں میں بھی اٹھا دیتے ہیں یہ اکثر سچا مال
شکلیں دیکھ کے سودے کرنا کام ہے ان بنجاروں کا
اپنی زباں سے کچھ نہ کہیں گے چُپ ہی رہیں گے عاشق لوگ
تم سے تو اتنا ہوسکتا ہے پوچھو حال بچاروں کا
جس  جپسی کا ذکر ہے تم سے دل کو اسی کی کھوج رہی
یوں تو ہمارے شہر میں اکثر میلا لگا  نگاروں کا
ایک ذرا سی بات تھی جس کا چرچا پہنچا گلی  گلی
ہم  گمناموں نے پھر بھی احسان نہ مانا یاروں کا
درد کا کہنا چیخ ہی اُٹھو ، دل کا کہنا ، وضع نبھاؤ
سب کچھ سہنا چپ چپ رہنا کام ہے عزّت داروں کا
انشاؔ جی اب اجنبیوں میں چین سے باقی عمر کٹے
جن کی خاطر بستی چھوڑی نام نہ لو ان پیاروں کا
                                 ابنِ انشاؔ

2016-04-19

Dil ghani hai dua se kya lena

دل غنی ہے دعا سے کیا  لینا

دل غنی ہے دعا سے کیا  لینا
بے ضرورت خدا  سے کیا  لینا
اپنی مرضی سے کچھ عطا   فرما
ہم کو اپنی رضا سے  کیا   لینا
 دردِ سر کا علاج پتھر  ہے
ہوشمندو ! صبا سے کیا لینا
لذّتِ درد ، ایک چیز تو ہے
درد والو ! دوا سے کیا  لینا
دانشِ راہزن سے کچھ مانگو
حکمتِ رہنما سے کیا لینا
آپ کا جور بھی غنیمت ہے
آپ کو اعتنا سے کیا لینا
مدّعا کے لیے سخن ، ہے ہے
خامشی کو صدا سے کیا لینا
بلبلے کی فنا ، نشاطِ ابد
زندگی کو بقا سے کیا لینا
ہم کو تیری جفا سے کیا نہ ملا
ہم کو تیری وفا سے کیا لینا
ہم فقیروں کی مشت میں سلطاں
ہم کو بالِ ہما سے کیا لینا
بت پرستی ہے نقد کا سودا
چھپنے والے خدا سے کیا لینا
اب سرِ شوق ہی نہیں باقی
اب ترے نقشِ پا سے کیا لینا
اے شہِ وقت ! اپنا رزق سنبھال
تجھ کو رزقِ گدا سے کیا لینا
مل گیا جو ازل میں ملنا تھا
اے عدؔم ماسوا سے کیا لینا
         عبدالحمید عدمؔ

Hum kuch is dhab se tere ghar ka pata dete hain

ہم کچھ اس ڈھب سے ترے گھر کا پتہ دیتے ہیں

ہم کچھ اس ڈھب سے ترے گھر کا پتہ دیتے ہیں
خضر بھی آئے تو گمراہ  بنا دیتے ہیں
کس قدر محسن و ہمدرد ہیں احباب مرے
جب بھی میں ہوش میں آتا ہوں پلا دیتے ہیں
شکر ہے فکر سے تو نے ہمیں آزاد کیا
راہ زن تیری بصیرت کو دعا دیتے ہیں
عقل ہر شخص کو اتنی کہاں ہوتی ہے نصیب
وہ تو کچھ سر پھرے انسان سکھا دیتے ہیں
ہم کریں گے بھی تو  رکھوالی کہاں تک اسکی
آج دل کو تری زلفوں میں بسا دیتے ہیں
حادثہ کوئی خدا  نے بھی کیا ہے پیدا
حادثے تو فقط انسان بنا   دیتے ہیں
یاد  بچھڑے ہوئے ایّام کی یوں آتی ہے
جس طرح  دور سے معشوق صدا دیتے ہیں
ہم کو شاہوں سے عدالت کی توقع تو نہیں
آپ کہتے ہیں تو زنجیر ہلا دیتے ہیں
دل اسی زہر کی لذّت سے سلامت ہے عدمؔ
ہم حسینوں کی جفاؤں کو دعا  دیتے ہیں
             عبدالحمید عدمؔ

2016-04-18

Dil ne seene mein tarap kar unhein jab yad kya

دل نے سینے میں تڑپ کر اُنھیں جب یاد کیا

دل نے سینے میں تڑپ کر اُنھیں جب یاد کیا
در   و     دیوار   کو    آمادۂ       فریاد    کیا
وصل سے شاد کیا   ، ہجر   سے   ناشاد   کیا
اُس نے جس طرح سے   چاہا   مجھے   برباد کیا
تم مرے رونے   پہ   روئے ستم   ایجاد   کیا
عشق     کی   روح     کو    آمادۂ   فریاد   کیا
صبر دو دن نہ ہوا ،  روئے بہت  یاد  کیا
اب نہ کہنا  یہ زباں سے تجھے  آزاد کیا
لاکھ جانیں ہوں تو پھر اُن پہ تصدق کردوں
وہ یہ فرمائیں کہ ہم نے اسے برباد کیا
کیا طریقہ ہے یہ صیّاد کا اللہ اللہ
ایک کو قید کیا ،  ایک کو آزاد کیا
ہم کو دیکھ او غمِ فرقت کے نہ سننے والے
اس برے حال میں بھی ہم نے تجھےیاد کیا
اور کیا چاہیئے سرمایۂ تسکیں اے دوست
اک نظر دل کی طرف دیکھ لیا شاد کیا
شرحِ نیرنگئ اسباب کہاں تک کیجئے
مختصر یہ کہ ہمیں آپ نے برباد کیا
پردۂ شوق سے اک برق تڑپ کر نکلی
یاد کرنے کی طرح سے انھیں جب یاد کیا
مہرباں ہم پہ رہی چشمِ سخن گو ان کی
جب ملی آنکھ نگاہوں نے کچھ ارشاد کیا
دل کا کیا حال کہوں جوشِ جنوں کے ہاتھوں
اک گھروندا سا ، بنایا ،  کبھی برباد کیا
اب سے پہلے تو نہ تھا ذوقِ محبت رسوا
شاید اُن مست نگاہوں نے کچھ ارشاد کیا
عشق کیوں سوگ مناتا یہ خوشی کیا کم ہے
دل یہ جس کا تھا اُسی نے اسے برباد کیا
بددُعا تھی ، کہ دُعا ، کچھ نہیں کھلتا لیکن
چپکے چپکے ، لبِ نازک نے کچھ ارشاد کیا
جُرمِ مجبورئ بے تاب ، الٰہی توبہ
یہ بھی اک بے ادبی تھی کہ تجھے یاد کیا
موت ، اک دامِ گرفتارئ تازہ ہے جگرؔ
یہ نہ سمجھو ، کہ غم ِ  عشق نے آزاد کیا
                     جگرؔ مراد آبادی

2016-04-17

Kya farq dagh o gul mein agar gul mein boo na ho

کیا فرق داغ و گل میں ، اگر گل میں بو نہ ہو

کیا فرق داغ و گل میں ، اگر گل میں بو نہ ہو
کس کام کا وہ دل ہے کہ جس دل میں تو نہ ہو
ہووے نہ حول و قوت اگر تیری درمیاں
جو ہم سے ہوسکے ہے ، سو ہم سے کبھو نہ ہو
جو کچھ کہ ہم نے کی ہے تمنّا ، ملی  ، مگر
یہ آرزو رہی ہے کہ کچھ آرزو نہ ہو
جوں شمع جمع ہوویں گر اہل  زباں ہزار
آپس میں چاہیے کہ کبھو گفتگو نہ ہو
جوں صبح ، چاکِ سینہ مرا ، اے رفو گراں
یاں تو کسو کے ہاتھ سے ہرگز رفو نہ ہو
اے درؔد ! زنگِ صورت اگر اس میں جا کرے
اہلِ صفا میں آئنۂ دل کو رُو نہ ہو
                  خواجہ میر درؔد دہلوی