یہ جو اک عُمر کی تنہائی ہے
یہ جو اک
عُمر کی تنہائی ہے
میرا معیارِ توانائی ہے
ہر طرف ایک ہی صورت کا ہجوم
یہ عجب انجمن آرائی ہے
وہی اک چاند ، وہی ایک زمیں
تیری میری یہی یکجائی ہے
شب کو جلتا ہے وہی مثلِ چراغ
دن کو جو لالۂ صحرائی ہے
عشق پتھر سے نمی مانگتا ہے
عقل کہتی ہے ، یہ دانائی ہے
بول سکتے ہیں ، مگر سب چُپ ہیں
یہ بھی اک طرح کی گویائی ہے
نوکِ خنجر سے سلے زخم ندؔیم
یہ نیا طرزِ مسیحائی ہے
احمد ندؔیم قاسمی
No comments:
Post a Comment