2016-04-05

Alam e hijar mein soya hoon na sona chahon

عالمِ ہجر میں سویا ہوں ، نہ سونا چاہوں
 
عالمِ ہجر میں سویا ہوں ، نہ سونا چاہوں
میں تری ذات سے مایوس نہ ہونا چاہوں
گل ترے دل میں کھلیں اور مہک جاؤں میں
اسی رشتے میں ہر انساں کو پرونا چاہوں
کیوں گوارا ہو  ترے درد میں بھی شرکتِ غیر
تو جو یاد آئے تو تنہائی میں رونا چاہوں
جستجو کے لیے رہتا ہے بہانہ درکار
کھو کے پایا جسے ، پاکر اسے کھونا چاہوں
چھا رہا ہے مرے اندر غمِ انجام کا ابر
خوش بھی ہوتا ہوں تو آنکھوں کو بھگونا چاہوں
میں ہوں اک طرفہ بھکاری ، کوئی میری بھی سنو
رات کے فرش پہ کرنوں کا بچھونا چاہوں
یوں تو اک پھول کی پتی سے بہل جاتا ہوں
میں مچل جاؤں تو صحرا کا کھلونا چاہوں
میرا منصب نہیں پیغمبرِ فن بننے کا
میں تو احساس کو لفظوں میں سمونا چاہوں
اس زمانے کا عجب طرزِ تصوف ہے ندؔیم
کہ میں قطرے میں سمندر کو ڈبونا چاہوں
                احمد ندؔیم قاسمی

No comments:

Post a Comment