اُٹھے نہ تھے ابھی ہم حالِ دل
سنانے کو
اُٹھے نہ تھے ابھی ہم حالِ دل سنانے کو
زمانہ بیٹھ گیا حاشیے چڑھانے کو
بھری بہار میں پہنچی خزاں مٹانے کو
قدم اُٹھائے جو کلیوں نے مسکرانے کو
جلایا آتشِ گل نے چمن میں ہر تنکا
بہار پھونک گئی میرے آشیانے کو
جمالِ بادہ و ساغر میں ہیں رموز بہت
مری نگاہ سے دیکھو شراب خانے کو
قدم قدم پہ رُلایا ہمیں مقدر نے
ہم اُن کے شہر میں آئے تھے مسکرانے کو
نہ جانے اب وہ مجھے کیا جواب دیتے ہیں
سنا تو دی ہے اُنہیں داستاں ”سنانے کو“
کہو کہ ہم سے رہیں دور ، حضرتِ واعظ
بڑے کہیں کے یہ آئے سبق پڑھانے کو
اب ایک جشنِ قیامت ہی اور باقی ہے
اداؤں سے تو وہ بہلا چکے زمانے کو
شبِ فراق نہ تم آسکے نہ موت آئی
غموں نے گھیر لیا تھا غریب خانے کو
نصیرؔ ! جن سے توقع تھی ساتھ دینے کی
تُلے ہیں مجھ پہ وہی اُنگلیاں اُٹھانے کو
پیر نصیر الدین نصیرؔ
No comments:
Post a Comment