چھوڑ دو گے تم ہمیں دشمن کے بہکانے
سے کیا
چھوڑ دو گے تم ہمیں دشمن کے بہکانے سے کیا
یوں تمہیں مل جائے گا اپنوں کو تڑپانے سے کیا
لاکھ سمجھاؤ مگر ہوتا ہے سمجھانے سے کیا
ہوش کی باتیں کرو اُلجھو گے دیوانے سے کیا
آپ کی باتیں سُنیں واعظ !مگر مانیں نہیں
چوٹ کھاتا ، آپ جیسے جانے پہچانے سے کیا
رقص کے عالم میں ہو جیسے یہ سارا میکدہ
آنکھ ساقی نے ملا رکھی ہے پیمانے سے کیا
خیر ، ہم نے
مان لی جو بات بھی تم نے کہی
تم کہو ، تم کو ملا جھوٹی قسم کھانے سے کیا
سامنے جب آگئے کیسی حیا ، کیسا حجاب
فائدہ اب منہ چھپانے اور شرمانے سے کیا
دیکھ زاہد ! بادۂ سر جوش کے چھینٹے نہ ہوں
تیرے دامن پر ہیں یہ تسبیح کے ” دانے سے“ کیا
ترکِ الفت اور پھر الفت بھی اس بے مثل کی
میں بہک جاؤں گا واعظ ! تیرے بہکانے سے کیا
آگ میں اپنی جلا کر خاک کر ڈالا اُسے
شمع ! آخر دشمنی ایسی بھی پروانے سے کیا
چارہ سازو ! کیوں دوا کرتے ہو ،
مرجانے بھی دو
بزم ہوجائے کی سُونی میرے اُٹھ
جانے سے کیا
مے کشی لازم نہیں ہے بزمِ ساقی میں
نصیرؔ
کام جب آنکھوں سے چل جائے تو پیمانے سے کیا
پیر نصیر الدین نصیرؔ
No comments:
Post a Comment