گھر سے نکلے اگر ہم بہک جائیں گے
گھر سے نکلے اگر ہم بہک جائیں گے
وہ گلابی کٹورے چھلک جائیں گے
ہم نے الفاظ کو آئینہ کردیا
چھُپنے والے غزل میں چمک جائیں گے
دشمنی کا سفر اک قدم دو قدم
تم بھی تھک جاؤگے ہم بھی تھک جائیں گے
رفتہ رفتہ ہر اک زخم بھر جائے گا
سب نشانات پھولوں سے ڈھک جائیں گے
نام پانی پہ لکھنے سے کیا فائدہ
لکھتے لکھتے ترے ہاتھ تھک جائیں گے
یہ پرندے بھی کھیتوں کے مزدور ہیں
لوٹ کے اپنے گھر شام تک جائیں گے
دن میں پریوں کی کوئی کہانی نہ سُن
جنگلوں میں مسافر بھٹک جائیں گے
بشیرؔبدر
No comments:
Post a Comment