ابھی اس طرف نہ نگاہ کر میں غزل کی پلکیں سنوار لوں
ابھی اس طرف نہ نگاہ کر میں غزل کی پلکیں سنوار لوں
مرا لفظ لفظ ہو آئینہ تجھے آئینے میں اُتار لوں
میں تمام دن کا تھکا ہوا تو تمام شب کا جگا ہوا
ذرا ٹھہر جا اسی موڑ پر تیرے ساتھ شام گزار لوں
اگر آسماں کی نمائشوں میں مجھے بھی اذنِ قیام ہو
تو میں موتیوں کی دکان سے تری بالیاں ترے ہار لوں
کہیں اور بانٹ دے شہر میں کہیں اور بخش دےعزتیں
میرے پاس ہے مرا آئینہ میں کبھی نہ گرد و غبار لوں
کئی اجنبی تری راہ میں مرے پاس سے یوں گزر گئے
جنہیں دیکھ کر یہ تڑپ ہوئی ترا نام لے کے پکار لوں
بشیرؔبدر
No comments:
Post a Comment