فقیرانہ آئے صدا کر چلے
فقیرانہ آئے صدا کر چلے
میاں خوش رہو ہم دعا کر چلے
جو تجھ بن نہ کہتے تھے جینے کو ہم
سو اس عہد کو اب وفا کرچلے
شفا اپنی تقدیر ہی میں نہ تھی
کہ مقدور تک تو دوا کر چلے
وہ کیا چیز ہے آہ جس کے لئے
ہر اک چیز سے دل اُٹھا کر چلے
کوئی نا امیدانہ کرتے نگاہ
سو تم ہم سے منہ بھی چھپا کر چلے
بہت آرزو تھی گلی کی تری
سو یاں سے لہو میں نہا کر چلے
دکھائی دیئے یوں کہ بےخود کیا
ہمیں آپ سے بھی جدا کرچلے
جبیں سجدہ کرتے ہی کرتے گئی
حقِ بندگی ہم ادا کر چلے
پرستش کی ہے یاں کہ اے بت تجھے
نظر میں سبھوں کی خدا کرچلے
جھڑے پھول جس رنگِ گلبن سے یوں
چمن میں جہاں کے ہم آکر چلے
نہ دیکھا غمِ دوستاں شکر ہے
ہمیں داغ اپنا دکھا کرچلے
گئی عمر در بندِ فکرِ غزل
سو اس فن کو ایسا بُرا کرچلے
کہیں کیا جو پوچھے کوئی ہم سے میرؔ
جہاں میں تم آئے تھے کیا کرچلے
میر تقی میرؔ
No comments:
Post a Comment