ہمتِ التجا نہیں باقی
ہمتِ التجا نہیں باقی
ضبط کا حوصلہ نہیں باقی
اک تری دید چھن گئی مجھ سے
ورنہ دنیا میں کیا نہیں باقی
اپنی مشق ِ ستم سے ہاتھ نہ کھینچ
میں نہیں یا وفا نہیں باقی
تیری چشمِ الم نواز کی خیر
دل میں کوئی گلہ نہیں باقی
ہوچکا ختم عہدِ ہجر و وصال
زندگی میں مزا نہیں باقی
فیض احمد
فیضؔ
No comments:
Post a Comment