2016-03-02

Saya e gul se behr tor juda ho jana

سایۂ گل سے بہر طور جُدا ہو جانا

سایۂ گل سے بہر طور جُدا ہو جانا
راس آیا نہ مجھے موجِ  صبا ہو  جانا
اپنا ہی جسم مجھے تیشۂ فرہاد لگا
میں نے چاہا تھا پہاڑوں کی صدا ہوجانا
موسمِ گل کے تقاضوں سے بغاوت ٹھہرا
قفسِ غنچہ سے خوشبو کا رِہا ہوجانا
قصرِ آواز میں اک حشر جگا دیتا ہے
اس حسیں شخص کا تصویر نما ہوجانا
راہ کی گرد سہی، مائلِ پرواز تو ہوں
مجھ کو آتا ہے تِرا "بندِقبا" ہوجانا
زندگی تیرے تبسّم کی وضاحت تو نہیں
موجِ طوفاں کا اُبھرتے ہی فنا ہوجانا
کیوں نہ اُس زخم کو میں پھول سے تعبیر کروں
جس کو آتا ہو ترا "بندِ قبا" ہو جانا
اشکِ کم گو! تجھے لفظوں کی قبا گر نہ ملے
میری پلکوں کی زباں سے ہی ادا ہوجانا
قتل گاہوں کی طرح سرخ ہے رستوں کی جبیں
اک قیامت تھا مرا آبلہ پا ہو جانا
پہلے دیکھو تو سہی اپنے کرم کی وسعت
پھر بڑے شوق سے تم میرے خدا ہوجانا
بے طلب درد کی دولت سے نوازو مجھ کو
دل کی توہین ہے مرہونِ دُعا ہوجانا
میری آنکھوں کے سمندر میں اترنے والے
کون جانے تری قسمت میں ہےکیا ہوجانا
کتنے خوبیدہ مناظر کو جگائے محسنؔ !
جاگتی آنکھ کا پتھرایا ہوا ہو جانا
     محسنؔ نقوی


No comments:

Post a Comment