نہ آئے تجھ کو نظر ، تُو مگر اُداس نہ ہو
نہ آئے تجھ کو نظر ، تُو مگر اُداس نہ ہو
تلاش کر ، وہ یہیں تیرے آس پاس نہ ہو
مجھے یقین نہیں ، اُس کو تیرا پاس نہ ہو
ترا گمان نہ ہو ، یہ ترا قیاس نہ ہو
وہ اور کیا کرے آخر ، اگر اُداس نہ ہو
بغیر عشق نہ چین آئے ، عشق راس نہ ہو
یہ کس کو لوگ لیے جا رہے ہیں کاندھوں پر
کہیں یہ شخص تمہارا وفا شناس نہ ہو
بچھڑنے والوں کو اِک دن خدا ملاتا ہے
تجھے ہماری قسم ، اس قدر اُداس نہ ہو
یہ بندگی ہےکہ ہر حال میں ہو شکر اُس کا
ہزار کچھ ہو ، مگر کوئی ناسپاس نہ ہو
وہ ماجرا جو ہے مجنوں کے نام سے مشہور
کہیں ہمارے فسانے کا اقتباس نہ ہو
ضیائے علم و ہنر سے ہے آبروئے بشر
یہ روشنی تو ہو ، اُجلا اگر لباس نہ ہو
مزا تو جب ہے کہ ہو بات بات قند و نبات
وہ بات زہر ہے جس بات میں مٹھاس نہ ہو
ہے ایک طنز کا نشتر ، دُعائے عمرِ دراز
اُس ایک شخص کو ، جینے کی جس کو آس نہ ہو
نصؔیر کھیل نہیں ہے شعورِ ذات و صفات
خدا شناس کہاں وہ ، جو خود شناس نہ ہو
پیر نصیر الدین نؔصیر
No comments:
Post a Comment