حسابِ عمر کا اتنا سا گوشوارا ہے
حسابِ عمر کا اتنا سا گوشوارا ہے
تمہیں نکال کے دیکھا تو سب خسارا ہے
ہر اک صدا جو ہمیں بازگشت لگتی ہے
نہ جانے ہم ہیں دوبارا کہ یہ دوبارا ہے
عجب اصول ہیں اس کاروبارِ دنیا کے
کسی کا قرض کسی اور نے اُتارا ہے
نجانے کب تھا
کہاں تھا مگر یہ لگتا ہے
یہ وقت پہلے بھی ہم نے کبھی گزارا ہے
یہ دو کنارے تو دریا ہے ہوگئے ہم تم
مگر وہ کون ہے جو تیسرا کنارا ہے
امجد اسلام امجدؔ
No comments:
Post a Comment