2016-03-13

Khaak e pa un ki jahan bhi kahin payi jaye

خاکِ پا اُن کی جہاں بھی کہیں پائی جائے

خاکِ پا اُن کی جہاں بھی کہیں پائی جائے
دل یہ کہتا ہے کہ آنکھوں سے لگائی جائے
اُن کی تصویر ِ ستم کیوں نہ دکھائی جائے
منظرِ عام پہ یہ شکل بھی لائی جائے
شعلے اُٹھتے ہیں اگر دل میں ، نہ آنسو روکو
آگ لگ جائے تو لازم ہے بجھائی جائے
اک نظر دید کی توفیق عطا ہو ہم کو
کچھ نہ کچھ حُسن کی خیرات لُٹائی جائے
گفتگو شیشہ و ساغر کی عبث ہے ساقی !
ہم وہ پیتے ہیں جو آنکھوں سے پلائی جائے
بارہا کہہ تو چکے تم سے کہانی دل کی
کیا ضروری ہے کہ تحریر میں لائی جائے
آپ کیوں دل کی تمناؤں کو پامال کریں
رائگاں کیوں کسی مفلس کی کمائی جائے
حُسن کیا شے ہے، ادا کیا ہے، وہ خود کیسے ہیں
بات کھل جائے گی ، تصویر منگائی جائے
قیس و فرہاد کے افسانوں میں کیا رکھا ہے
داستاں میری مجھی کو نہ سنائی جائے
مجھ سے کہتا ہے نصؔیر اب کے برس جوشِ جنوں
کم سے کم ، خاک بیاباں کی اُڑائی جائے
                پیر نصیر الدین نصؔیر

No comments:

Post a Comment