مرے قابو میں نہ پہروں دلِ ناشاد آیا
مرے قابو میں نہ پہروں دلِ ناشاد آیا
وہ مرا بھولنے والا جو مجھے یاد آیا
کوئی بھولا ہوا اندازِ ستم یاد آیا
کہ تبسم تجھے ظالم دمِ بیداد آیا
چین کرتے ہیں وہاں رنج اُٹھانے والے
کام عقبیٰ میں ہمارا دلِ ناشاد آیا
دی موذّن نے شبِ وصل اذاں پچھلی رات
ہائے کمبخت کو کس وقت خدا یاد آیا
لیجئے سنیئے اب افسانۂ فرقت مجھ سے
آپ نے یاد دلایا تو مجھے یاد آیا
آپ کی بزم میں سب کچھ ہے مگر داؔغ نہیں
ہم کو وہ خانہ خراب آج بہت یاد آیا
نواب مرزا خان داؔغ دہلوی
No comments:
Post a Comment