ہر ایک دل کو طلب ہر نظر سوالی ہے
ہر ایک دل کو طلب ہر نظر سوالی ہے
کہ شہرِ حُسن میں جلوؤں کی قحط سالی ہے
کہاں ہے دوست کہ آشوبِ دہر سے میں نے
ترے خیال کی آسودگی بچالی ہے
بتا رہا ہے فضا کا اٹوٹ سناٹا
افق سے پھر کوئی آندھی اُترنے والی ہے
لرز رہے ہیں شگوفے چمن میں کھلتے ہوئے
حنائے دستِ صبا میں لہو کی لالی ہے
پیئو شراب کہ ناصح نے زہر بھی دے کر
ہماری جُرأتِ رندانہ آزمالی ہے
پھر آھ دانۂ گندم کے سلسلے میں فؔراز
کسی خدا نے مری خلد بیچ ڈالی ہے
احمد فؔراز
No comments:
Post a Comment