خاطر سے یا لحاظ سے میں مان تو گیا
خاطر سے یا لحاظ سے میں مان تو گیا
جھوٹی قسم سے آپ کا ایمان تو گیا
دل لے کے مفت کہتے ہیں کچھ کام کا نہیں
الٹی شکائتیں ہوئیں احسان تو گیا
ڈرتا ہوں دیکھ کر دلِ بے آرزو کو میں
سنسان گھر یہ کیوں نہ ہو مہمان تو گیا
افشائے رازِ عشق میں گو ذلتیں ہوئیں
لیکن اسے جتا تو دیا جان تو گیا
گو نامہ بر سے خوش نہ ہوا پر ہزار شکر
مجکو وہ میرے نام سے پہچان تو گیا
بزمِ عدو میں صورتِ پروانہ دل مرا
گو رشک سے جلا ترے قربان تو گیا
ہوش و حواس و تاب و تواں داؔغ جا چکے
اب ہم بھی جانے والے ہیں سامان تو گیا
نواب مرزا خان داؔغ دہلوی
No comments:
Post a Comment