2016-03-21

Khatir se ya lihaz se main man to gaya

خاطر سے یا لحاظ سے میں مان تو گیا

خاطر سے یا لحاظ سے میں مان تو گیا
جھوٹی قسم سے آپ کا ایمان تو گیا
دل لے کے مفت کہتے ہیں کچھ کام کا نہیں
الٹی شکائتیں ہوئیں احسان تو گیا
ڈرتا ہوں دیکھ کر دلِ بے آرزو کو میں
سنسان گھر یہ کیوں نہ ہو مہمان تو گیا
افشائے رازِ عشق میں گو ذلتیں ہوئیں
لیکن اسے جتا تو دیا جان تو گیا
گو نامہ بر سے خوش نہ ہوا پر ہزار شکر
مجکو  وہ میرے نام سے پہچان تو گیا
بزمِ عدو میں صورتِ پروانہ دل مرا
گو رشک سے جلا ترے قربان تو گیا
ہوش و حواس و تاب و تواں داؔغ جا چکے
اب ہم بھی جانے والے ہیں سامان تو گیا
          نواب مرزا خان داؔغ دہلوی

No comments:

Post a Comment