کون کہتا ہےکہ موت آئی تو مر جاؤں گا
کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مرجاؤں گا
میں تو دریا ہوں سمندر میں اُتر جاؤں گا
ترا در چھوڑ کے میں اور کدہر جاؤں گا
گھر میں گھر جاؤں گا صحرا میں بکھر جاؤں گا
ترے پہلو سے جو اُٹھوں گا تو مشکل یہ ہے
صرف اِک شخص کو پاؤں گا جدھر جاؤں گا
اب ترے شہر میں آؤں گا مسافر کی طرح
سایۂ ابر کی مانند گزر جاؤں گا
ترا پیمانِ وفا راہ کی دیوار بنا
ورنہ سوچا تھا کہ جب چاہوں گا مرجاؤں گا
چارہ سازوں سے الگ ہے میرا معیار کہ میں
زخم کھاؤں گا تو کچھ اور سنور جاؤں گا
اب تو خورشید کو ڈوبے ہوئے صدیاں گزریں
اب اسے ڈھونڈنے میں تا بسحر جاؤں گا
زندگی شمع کی مانند جلاتا ہوں ندیمؔ
بجھ تو جاؤں گا مگر صبح تو کر جاؤں گا
احمد ندیؔم قاسمی
No comments:
Post a Comment