کبھی جو چھیڑ گئی یادِ رفتگاں محسنؔ
کبھی جو چھیڑ گئی یادِ رفتگاں محسنؔ
بکھر گئی ہیں نگاہیں کہاں کہاں محسنؔ
ہوا نے راکھ اُڑائی تو دل کو یاد آیا
کہ جل بجھیں مرے خوابوں کی بستیاں محسنؔ
کچھ ایسے گھر بھی ملے جن میں گھونگھٹوں کے عوض
ہوئی ہیں دفن دوپٹوں میں لڑکیاں محسنؔ
کھنڈر ہے عہدِ گزشتہ ، نہ چھو نہ چھیڑ اسے
کھلیں تو بند نہ ہوں اس کی کھڑکیاں محسنؔ
بجھا ہے کون ستارہ کہ اپنی آنکھ کے ساتھ
ہوئے ہیں سارے مناظر دُھواں دُھواں محسنؔ
نہیں کہ اُس نے گنوائے ہیں ماہ و سال اپنے
تمام عمر کٹی یوں بھی رائیگاں محسنؔ
ملا تو اور بھی تقسیم کر گیا مجھ کو
سمیٹنا تھیں جسے میری کرچیاں محسنؔ
کہیں سے اُس نے بھی توڑا ہے خود سے ربطِ وفا
کہیں سے بھول گیا میں بھی داستاں محسنؔ
محسنؔ نقوی
No comments:
Post a Comment