کب ہم نے کہا تھا ہمیں دستار و قبا دو
کب ہم نے کہا تھا ہمیں دستار و قبا دو
ہم لوگ نوا گر ہیں ہمیں اِذنِ نوا دو
ہم آئینے لائے ہیں سرِ کوُئے رقیباں
اے سنگ فروشو یہی الزام لگا دو
لگتا ہے کہ میلہ سا لگا ہے سرِمقتل
اے دل زدگاں بازوئے قاتل کو دعا دو
ہے بادہ گساروں کو تو میخانے سے نسبت
تم مسندِ ساقی پہ کسی کو بھی بٹھادو
میں شب کا بھی مجرم تھا سحر کا بھی گنہگار
لوگو مجھے اس شہر کے آداب سکھا دو
احمد فرازؔ
No comments:
Post a Comment