2016-03-09

Ye main bhi kya hoon use bhool kar usi ka raha

یہ میں بھی کیا ہوں اسے بھول کر اسی کا رہا

یہ میں بھی کیا ہوں اسے بھول کر اسی کا رہا
کہ جس کے ساتھ نہ تھا ہمسفر اسی کا رہا
وہ بت کہ دشمنِ دیں تھا بقول ناصح کے
سوالِ سجدہ جب آیا تو در اسی کا رہا
ہزار چارہ گروں مے ہزار باتیں کیں
کہا جو دل مے سخن معتبر اسی کا رہا
بہت سی خواہشیں  سو بارشوں میں بھیگی ہیں
میں کس طرح سے کہوں عمر بھر اسی کا رہا
کہ اپنے حرف کی توقیر جانتا تھا فرازؔ
اسی لئے کفِ قاتل پہ سر اسی کا رہا
                    احمد فرازؔ

No comments:

Post a Comment