اگر کسی سے مراسم بڑھانے لگتے ہیں
اگر کسی سے مراسم بڑھانے لگتے ہیں
ترے فراق کے دُکھ یاد آنے لگتے ہیں
ہمیں ستم کا گلہ کیا کہ یہ جہاں والے
کبھی کبھی ترا دل بھی دُکھانے لگتے ہیں
سفینے چھوڑ کے ساحل چلے تو ہیں لیکن
یہ دیکھنا ہے کہ اب کس ٹھکانے لگتے ہیں
پلک جھپکتے ہی دنیا اُجاڑ دیتی ہے
وہ بستیاں جنھیں بستے زمانے لگتے ہیں
فؔراز ملتے ہیں غم بھی نصیب والوں کو
ہر اک کے ہاتھ کہاں یہ خزانے لگتے ہیں
احمد فؔراز
No comments:
Post a Comment