2016-02-12

Kuch log bichha kr kanton ko

کچھ لوگ بچھا کر کانٹوں کو گلشن کی  توقع رکھتے ہیں

کچھ لوگ بچھا کر کانٹوں کو گلشن کی  توقع رکھتے ہیں
شعلوں کو ہوائیں دے دے کر ساون کی توقع رکھتے ہیں
ماحول کے تپتے صحرا سے حالات کی اُجڑی شاخوں سے
ہم اہلِ جنوں پھولوں سے بھرے دامن کی توقع رکھتے ہیں
جب سارا  اثاثہ لُٹ جائے تسکینِ سفر ہوجاتی ہے
ہم راہنماؤں کے بدلے رہزن کی توقع رکھتے ہیں
سنگین چٹانوں سے دل کے دُکھنے کی شکایت کرتے ہیں
ظُلمت کے نگر میں نُورانی آنگن کی توقع رکھتے ہیں
وہ گیسوئے جاناں ہوں ساؔغر یا گردشِ دوراں کے سائے
اے وائے مقدّر دونوں سے اُلجھن کی توقع رکھتے ہیں
                    ساؔغر صدیقی

No comments:

Post a Comment