کچھ لوگ بچھا کر کانٹوں کو گلشن کی توقع رکھتے ہیں
کچھ لوگ بچھا کر کانٹوں کو گلشن کی
توقع رکھتے ہیں
شعلوں کو ہوائیں دے دے کر ساون کی توقع رکھتے ہیں
ماحول کے تپتے صحرا سے حالات کی اُجڑی شاخوں سے
ہم اہلِ جنوں پھولوں سے بھرے دامن کی توقع رکھتے ہیں
جب سارا اثاثہ لُٹ جائے تسکینِ سفر
ہوجاتی ہے
ہم راہنماؤں کے بدلے رہزن کی توقع رکھتے ہیں
سنگین چٹانوں سے دل کے دُکھنے کی شکایت کرتے ہیں
ظُلمت کے نگر میں نُورانی آنگن کی توقع رکھتے ہیں
وہ گیسوئے جاناں ہوں ساؔغر یا گردشِ دوراں کے سائے
اے وائے مقدّر دونوں سے اُلجھن کی توقع رکھتے ہیں
ساؔغر صدیقی
No comments:
Post a Comment