کوئی
لشکر ہے کہ بڑھتے ہوئے غم آتے ہیں
کوئی
لشکر ہے کہ بڑھتے ہوئے غم آ تے ہیں
شام
کے سائے بہت تیز قدم آتے ہیں
دل وہ
درویش ہے کہ جو آنکھ اُٹھاتا ہی نہیں
اس کے
دروازے پہ سو اہلِ کرم آتے ہیں
مجھ
سے کیا بات لکھانی ہے کہ اب میرے لئے
کبھی
سونے کبھی چاندی کے قلم آتے ہیں
میں
نے دوچار کتابیں تو پڑھی ہیں لیکن
شہر کے طور طریقے مجھے کم آتے ہیں
خوب صورت سا کوئی حادثہ آنکھوں میں لئے
گھر کی دہلیز پہ ڈرتے ہوئے ہم آتے ہیں
بشیر بدؔر
شہر کے طور طریقے مجھے کم آتے ہیں
خوب صورت سا کوئی حادثہ آنکھوں میں لئے
گھر کی دہلیز پہ ڈرتے ہوئے ہم آتے ہیں
بشیر بدؔر
No comments:
Post a Comment