ظاھر شمال میں کوئی تارا ہوا تو ہے
ظاھر شمال میں کوئی تارا ہوا تو ہے
اِذنِ سفر کا ایک اشارا ہوا تو ہے
کیا ہے جو رکھ دی آخری داؤ میں نقدِ جاں
ویسے بھی ہم نے کھیل یہ ہارا ہوا تو ہے
وہ جان اس کو خیر خبر ہے بھی یا نہیں
دل ہم نے اس کے نام پہ وارا ہوا تو ہے
پاؤں میں نارسائی کا اِک آبلہ سہی
اِس دشتِ غم میں کوئی ہمارا ہوا تو ہے
اُس بے وفا سے ہم کو یہ نسبت بھی کم نہیں
کچھ وقت ہم نے ساتھ گزارا ہوا تو ہے
اپنی طرف اُٹھے نہ اُٹھے اُس کی چشمِ خوش
امجدؔ کسی کے درد کا چارا ہوا تو ہے
امجد اسلام امجدؔ
No comments:
Post a Comment