2016-04-13

Khud apne liye baith ke sochenge kisi din

خود اپنے  لیے بیٹھ کے سوچیں گے کسی دن

خود اپنے لیے بیٹھ کے سوچیں گے کسی دن
یوں ہے کہ تجھے بھول کے دیکھیں گے کسی دن
بھٹکے ہوئے پھرتے ہیں کئی لفظ جو دل میں
دنیا نے دیا وقت تو لکھیں گے کسی دن
ہل جائیں گے اک بار تو عرشوں کے در و بام
یہ خاک نشیں لوگ جو بولیں گے کسی دن
آپس میں کسی بات کا ملتا ہی نہیں وقت
ہر بار یہ کہتے ہیں کہ ” بیٹھیں گے کسی دن! “
اے جان تری یاد کے بے نام پرندے
شاخوں پہ مرے درد کی اُتریں گے کسی دن
جاتی ہے کسی جھیل کی گہرائی کہاں تک
آنکھوں میں تری ڈوب کے دیکھیں گے کسی دن
خوشبو سے بھری شام میں جگنو کے قلم سے
اک نظم ترے واسطے لکھیں گے کسی دن
سوئیں گے تری آنکھ کی خلوت میں کسی رات
سائے میں تری زُلف کے جاگیں گے کسی دن
صحرائے خرابی کی اسی گردِ سفر سے
پھولوں سے بھرے راستے نکلیں گے کسی دن
خوشبو کی طرح مثلِ صبا خواب نما سے
گلیوں سے ترے شہر کی گزریں گے کسی دن
امؔجد ہے یہی اب کہ کفن باندھ کے سر پر
اُس شہرِ ستم گار میں جائیں گے کسی دن 
                      امجد اسلام امجؔد

No comments:

Post a Comment