خود اپنے لیے بیٹھ کے سوچیں گے کسی دن
خود اپنے لیے بیٹھ کے سوچیں گے کسی دن
یوں ہے کہ تجھے بھول کے دیکھیں گے کسی دن
بھٹکے ہوئے پھرتے ہیں کئی لفظ جو دل میں
دنیا نے دیا وقت تو لکھیں گے کسی دن
ہل جائیں گے اک بار تو عرشوں کے در و بام
یہ خاک نشیں لوگ جو بولیں گے کسی دن
آپس میں کسی بات کا ملتا ہی نہیں وقت
ہر بار یہ کہتے ہیں کہ ” بیٹھیں گے کسی دن! “
اے جان تری یاد کے بے نام پرندے
شاخوں پہ مرے درد کی اُتریں گے کسی دن
جاتی ہے کسی جھیل کی گہرائی کہاں تک
آنکھوں میں تری ڈوب کے دیکھیں گے کسی دن
خوشبو سے بھری شام میں جگنو کے قلم سے
اک نظم ترے واسطے لکھیں گے کسی دن
سوئیں گے تری آنکھ کی خلوت میں کسی رات
سائے میں تری زُلف کے جاگیں گے کسی دن
صحرائے خرابی کی اسی گردِ سفر سے
پھولوں سے بھرے راستے نکلیں گے کسی دن
خوشبو کی طرح مثلِ صبا خواب نما سے
گلیوں سے ترے شہر کی گزریں گے کسی دن
امؔجد ہے یہی اب کہ کفن باندھ کے سر پر
اُس شہرِ ستم گار میں جائیں گے کسی دن
امجد اسلام امجؔد
No comments:
Post a Comment