مسکراتی ہوئی دھنک ہے وہی
مسکراتی ہوئی دھنک ہے وہی
اس بدن میں چمک دمک ہے وہی
پھول کُملا گئے اجالوں کے
سانولی شام میں نمک ہے وہی
اب بھی چہرہ چراغ لگتا ہے
بجھ گیا ہے مگر چمک ہے وہی
وہ سراپا دیئے کی لو جیسا
میں ہوا ہوں ادھر لپک ہے وہی
کوئی شیشہ ضرور ٹوٹا ہے
گنگناتی ہوئی کھنک ہے وہی
پیار کس کا مِلا ہے مٹی میں
اس چنبیلی تلے مہک ہے وہی
بشیرؔ بدر
No comments:
Post a Comment