2016-03-30

Mujh se kafir ko tere ishq ne yun sharmaya

مجھ سے کافر کو تیرے عشق نے یوں شرمایا

مجھ سے کافر کو تیرے عشق نے یوں شرمایا
دل تجھے دیکھ کے دھڑکا تو خدا یاد آیا
میرے دل پہ تو ہے اب تک تیرے غم کا سایہ
لوگ کہتے ہیں نیا دور نئے دُکھ لایا
میرا معیارِ وفا ہی میری مجبوری ہے
رُخ بدل کر بھی تجھے اپنے مقابل پایا
چارہ گر آج ستاروں کی قسم کھا کے بتا
کس نے انساں کو تبسم کے لئے ترسایا
نذر کرتا رہا میں پھول سے جذبات اسے
جس نے پتھر کے کھلونوں سے مجھے بہلایا
لوگ ہنستے ہیں تو اس سوچ میں کھو جاتا ہوں
موجِ سیلاب نے پھر کس کا گھروندا ڈھایا
اس کے اندر کوئی فنکار چھپا بیٹھا ہے
جانتے بوجھتے جس شخص نے دھوکا کھایا
                   احمد ندیمؔ قاسمی

No comments:

Post a Comment