مجھ سے کافر کو تیرے عشق نے یوں
شرمایا
مجھ سے کافر کو تیرے عشق نے یوں شرمایا
دل تجھے دیکھ کے دھڑکا تو خدا یاد آیا
میرے دل پہ تو ہے اب تک تیرے غم کا سایہ
لوگ کہتے ہیں نیا دور نئے دُکھ لایا
میرا معیارِ وفا ہی میری مجبوری ہے
رُخ بدل کر بھی تجھے اپنے مقابل پایا
چارہ گر آج ستاروں کی قسم کھا کے بتا
کس نے انساں کو تبسم کے لئے ترسایا
نذر کرتا رہا میں پھول سے جذبات اسے
جس نے پتھر کے کھلونوں سے مجھے بہلایا
لوگ ہنستے ہیں تو اس سوچ میں کھو جاتا ہوں
موجِ سیلاب نے پھر کس کا گھروندا ڈھایا
اس کے اندر کوئی فنکار چھپا بیٹھا ہے
جانتے بوجھتے جس شخص نے دھوکا کھایا
احمد ندیمؔ قاسمی
No comments:
Post a Comment