اضطرابِ عاشقی پھر کارفرما ہو گیا
اضطرابِ عاشقی پھر کارفرما ہوگیا
صبر میرا نا شکیبائی سراپا ہوگیا
سادگی ہائے تمنّا کے مزے جاتے رہے
ہوگئے مشتاق ہم اور وہ خود آرا ہوگیا
وائے ناکامی نہ سمجھا کون ہے پیشِ نظر
میں کہ حُسنِ یار کا محوِ تماشا ہوگیا
بعد مدّت کے ملے تو شرم مجھ سے کس لئے
تم نئے کچھ ہوگئے یا میں نرالا ہوگیا
نوجوانی تھی کوئی شیدا نہ تھا میرے سوا
ایک حسنِ کار کا وہ بھی زمانہ ہوگیا
شورشیں جاتی رہیں وہ آرزوئے وصل کی
رنجِ دُوری مرہمِ زخمِ تمنّا ہوگیا
سحر وہ کیا تھا نگاہِ آشنائے یار میں
جو دلِ بیمار کے حق میں مسیحا ہوگیا
ضبط سے رازِ محبت کا چھپانا تھا محال
شوق گر پنہاں ہوا غم آشکارا ہوگیا
ہے زبانِ لکنؤ میں رنگِ دہلی کی نمود
تجھ سے حؔسرت نام روشن شاعری کا ہوگیا
حؔسرت موہانی
No comments:
Post a Comment