2016-03-30

Dunya ka kuch bura bhi tamasha nahin raha

دنیا کا کچھ بُرا بھی تماشہ نہیں رہا

دنیا کا کچھ بُرا بھی تماشہ نہیں رہا
دل چاہتا تھا جس طرح ویسا نہیں رہا
تم سے ملے بھی ہم تو جُدائی کے موڑ پر
کشتی ہوئی نصیب تو دریا نہیں رہا
کہتے تھے ایک پل نہ جئیں گے تیرے بغیر
ہم دونوں رہ گئے ہیں وہ وعدہ نہیں رہا
کاٹے ہیں اِس طرح  سے تیرے بعد روز و شب
میں سانس لے رہا تھا پر زندہ نہیں رہا
آنکھیں بھی دیکھ دیکھ کے خواب آگئی ہیں تنگ
دل میں بھی اب وہ شوق وہ لپکا نہیں رہا
کیسے ملائیں آنکھ کسی آئینے سے ہم
اؔمجد ہمارے پاس تو چہرہ نہیں رہا
              امجد اسلام اؔمجد

No comments:

Post a Comment