2016-02-24

Umeed o beem ke mehwer se hat ke dekhte hain

اُمید و بیم کے محور سے  ہٹ کے  دیکھتے ہیں

اُمید و بیم کے محور سے ہٹ کے دیکھتے ہیں
ذرا سی دیر کو دنیا سے کٹ کے دیکھتے ہیں
بکھر چکے ہیں بہت باغ ودشت و دریا میں
اب اپنے حجرۂ جاں میں سمٹ کے دیکھتے ہیں
پھر اس کے بعد جو ہونا ہے ہورہے سرِدست
بساطِ   عافیتِ   جاں الٹ کے   دیکھتے ہیں
وہی ہے خواب جسے سب نے مل کے دیکھا تھا
اب اپنے اپنے قبیلوں میں بٹ کے دیکھتے ہیں
سنا یہ ہے کہ سبک ہو چلی ہے قیمتِ حرف
سو ہم بھی اب قدوقامت سے گھٹ کے دیکھتے ہیں
تمام خانہ بدوشوں میں مشترک ہے یہ بات
سب اپنے اپنے گھروں کو پلٹ کے دیکھتے ہیں
         افتخار عارؔف


No comments:

Post a Comment