کچھ اس قدر ہوئے مایوس گھر نہیں آتے
کچھ اس قدر ہوئے مایوس گھر نہیں آتے
پرندے اب کسی آواز پر نہیں آتے
جو دوسروں کے غموں پر نگاہ دوڑائیں
تو اپنے دکھ ہمیں دکھ ہی نظر نہیں آتے
تمہاری بزمِ تمنا کی ہے کشش کچھ اور
وگرنہ دشت سے آشفتہ سر نہیں آتے
اگر ہو آدمی دشواریوں کا شیدائی
تو پھر سفر میں کہیں بھی بھنور نہیں آتے
شناوری سے شناسائی لازمی ہے بہت
کہ ہاتھ یوں کہیں لعل و گہر نہیں آتے
جنہیں اُجاڑ گئی ہیں تمازتیں محسؔن
پھر ان درختوں پہ برگ و ثمر نہیں آتے
محسؔن احسان
No comments:
Post a Comment