خیالِ ترکِ
تمنا نہ کرسکے تو بھی
خیالِ
ترکِ تمنا نہ کرسکے تو بھی
اُداسیوں
کا مداوا نہ کرسکے تو بھی
کبھی وہ
وقت بھی آئے کہ کوئی لمحۂ عیش
مرے بغیر
گوارا نہ کرسکے تو بھی
خدا وہ
دن نہ دکھائے تجھے کہ میرے طرح
مری وفا
پہ بھروسا نہ کرسکے تو بھی
میں اپنا
عقدۂ دل تجھ کو سونپ دیتا ہوں
بڑا مزا
ہو اگر وا نہ کرسکے تو بھی
تجھے یہ
غم کہ مری زندگی کا کیا ہو گا
مجھے یہ
ضد کہ مداوا نہ کرسکے تو بھی
نہ کر
خیالِ تلافی کہ میرا زخمِ وفا
وہ زخم
ہے جسے اچھا نہ کر سکے تو بھی
ناصر کاظمی
No comments:
Post a Comment