ہر تماشائی فقط ساحل سے منظر دیکھتا
ہر تماشائی فقط ساحل سے منظر دیکھتا
کون دریا کو اُلٹتا ،
کون گوہر دیکھتا
وہ تو دنیا کو مری دیوانگی خوش آگئی
تیرے ہاتھوں میں وگرنہ پہلا پتھردیکھتا
آنکھ میں آنسوجڑے تھےپرصدا تجھ کونہ دی
اس توقع پر کہ شاید تو پلٹ کر دیکھتا
میری قسمت کی لکیریں میرے ہاتھوں میں نہ
تھیں
تیرے ماتھے پر کوئی میرا مقدر دیکھتا
زندگی پھیلی ہوئی تھی شامِ ہجراں کی طرح
کس کو اتنا حوصلہ تھا کون جی کر دیکھتا
ڈوبنے والا تھا اور ساحل پہ چہروں کا ہجوم
پل کی مہلت تھی میں کس کو آنکھ بھر کر
دیکھتا
تُو بھی دل کو اک لہُو کی بوند سمجھا ہے
فرازؔ
آنکھ اگر ہوتی تو قطرے میں سمندر دیکھتا
احمد فرازؔ
No comments:
Post a Comment