ہم کو یورپ میں کراچی کی فضا یاد رہی
ہم کو یورپ میں کراچی کی فضا یاد رہی
وہی گرمی ، وہی مرطوب ہوا یاد
رہی
ایک ہنگامہ ہے لندن مگر اس میں بھی ہمیں
تیرے ہی دل کے دھڑکنے کی صدا یاد رہی
شامِ پیرس نے بہت رنگ
دکھائے ہم کو
اور وہی سادگئ رنگ
ِ حنا یاد رہی
مہرباں غمزہ کناں، مہ وشانِ
روما
حیرتی ہیں کہ ہمیں کس کی وفا یاد رہی
کیا وہ سیلاب تھا اس قوس و قزح کا جس میں
ایک اپنی ہی کِرن سب سے جُدا یاد رہی
سحرِ برلن سے ہی پوچھو تو گواہی
مِل جائے
وہی سرمستئ لاہور سدا یاد رہی
جھیل لیمان کا منظر ، وہ سرورِ ابدی
کوئی تو بات ہمیں اس سے سوا یاد رہی
ایمسٹردم میں جو طوفانِ گُل و لالہ مِلا
اس میں بھی زرد چنبیلی کی ہوا
یاد رہی
ارضِ ڈینیوب کہ نغموں کا
سمندر ہے وہاں
لبِ مہران کی پُرسوز نِدا
یاد رہی
اس طلسمات سے آنا کوئی
آسان نہ تھا
وہ تو کہیئے کہ ہمیں لغزشِ پا یاد
رہی
جمیل الدین عالیؔ
No comments:
Post a Comment