ہونٹوں پہ محبت کے فسانے نہیں آتے
ہونٹوں پہ محبت کے فسانے نہیں آتے
ساحل پہ سمندر کے خزانے نہیں آتے
پلکیں بھی چمک اُٹھتی ہیں سونے میں ہماری
آنکھوں کو ابھی خواب چھپانے نہیں آتے
دل اُجڑے ہوئے ایک سرائے کی طرح ہے
اب لوگ یہاں رات جگانے نہیں آتے
یارو نئے موسم نے یہ احسان کئے ہیں
اب یاد مجھے درد پُرانے نہیں آتے
اُڑنے دو پرندوں کو ابھی شوخ ہوا میں
پھر لوٹ کے بچپن کے زمانے نہیں آتے
اس شہر کے بادل تری زلفوں کی طرح ہیں
یہ آگ لگاتے ہیں بجھانے نہیں آتے
احباب بھی غیروں کی ادا سیکھ گئے ہیں
آتے ہیں مگر دل کو دُکھانے نہیں آتے
بشیر ؔبدر
No comments:
Post a Comment