ہر دوا درد کو بڑھا ہی دے
ہر دوا درد کو بڑھا ہی دے
اب تو اے دل اسے بھلا ہی دے
لُٹنے والے سے ہوں گریز نہ کر
کیا خبر وہ تجھے دُعا ہی دے
جس کے چہرے پہ میری آنکھیں ہیں
وہ مجھے طعنِ کم نگاہی دے
یہ بھی اک شیوۂ رفاقت ہے
جانے والے کو راستا ہی دے
جانکنی کے عذاب سے نکلوں
آخری تیر بھی چلا ہی دے
اب تو جیسے فرازؔ بادِ مراد
زندگی کا دیا بجھا ہی دے
احمد
فرازؔ
No comments:
Post a Comment