چہرے پڑھتا آنکھیں لکھتا رہتا ہوں
چہرے پڑھتا آنکھیں لکھتا رہتا ہوں
میں بھی کیسی باتیں لکھتا رہتا ہوں
سارے جسم درختوں جیسے لگتے ہیں
اور بانہون کو شاخیں لکھتے رہتا ہوں
تجھ کوخط لکھنے کے تیور بھول گئے
آڑھی ترچھی سطریں لکھتا رہتا ہوں
تیرے ہجر میں اور مجھے کیا کرنا ہے
تیرے نام کتابیں لکھتا رہتا ہوں
تیری زلف کے سائے دھیان میں رہتے ہیں
میں صبحوں کو شامیں لکھتا رہتا ہوں
اپنے پیار کی پھول مہکتی راہوں میں
لوگوں کو دیواریں لکھتا رہتا ہوں
تجھ سے مل کر سارے دکھ دہراؤں گا
ہجر کی ساری باتیں لکھتا رہتا ہوں
سوکھے پھول، کتابیں، زخم جدائی کے
تیری سب سوغاتیں لکھتا رہتا ہوں
اس کی بھیگی پلکیں ہنستی رہتی ہیں
محسؔن جب تک غزلیں لکھتا رہتا ہوں
محسؔن نقوی
No comments:
Post a Comment