2016-04-09

Muskurati hui dhanak hai wahi

مسکراتی ہوئی دھنک ہے وہی

مسکراتی ہوئی دھنک ہے وہی
اس بدن میں چمک دمک ہے وہی
پھول کُملا گئے   اجالوں کے
سانولی شام میں نمک ہے وہی
اب بھی چہرہ چراغ لگتا ہے
بجھ گیا ہے مگر چمک ہے وہی
وہ سراپا دیئے کی لو جیسا
میں ہوا ہوں  ادھر لپک ہے وہی
کوئی شیشہ ضرور ٹوٹا ہے
گنگناتی ہوئی کھنک ہے وہی
پیار کس کا مِلا ہے مٹی میں
اس چنبیلی تلے مہک ہے وہی
                   بشیرؔ بدر

No comments:

Post a Comment