تہمتِ چند اپنے ذمے دھر چلے
تہمتِ چند اپنے ذمے دھر چلے
جس لیے آئے تھے سو ہم کر چلے
زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے !
ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مر چلے
کیا ہمیں کام ان گلوں سے اے صبا
ایک دم آئے اِدھر اُودھر چلے
دوستو! دیکھا تماشا یاں کا سب
تم رہو خوش ہم تو اپنے گھر چلے
آہ ! بس مت جی جلا ، تب جانیے
جب کوئی افسوں ترا اُس پر چلے
ایک میں دل ریش ہوں ویسا ہی دوست
زخم کتنوں کے ، سُنا ہے ، بھر چلے
شمع کی مانند ، ہم اِس بزم میں
چشمِ تر آئے تھے ، دامن تر چلے
ڈھونڈتے ہیں آپ سے اُس کو پرے
شیخ صاحب چھوڑ گھر ، باہر چلے
ہم نہ جانے پائے باہر آپ سے
وہ ہی آڑے آگیا ، جیدھر چلے
ہم جہاں میں آئے تھے تنہا ولے
ساتھ اپنے اب اُسے لے کر چلے
جوں شرر ، اے ہستیِ بے بود! یاں
بارے ہم بھی اپنی باری بھر چلے
ساقیا ! یاں لگ رہا ہے چل چلاؤ
جب تلک بس چل سکے ساغر چلے
دردؔ ! کچھ معلوم ہے ، یہ لوگ سب
کس طرف سے آئے تھے، کیدھر چلے
خواجہ میر دردؔ دہلوی
No comments:
Post a Comment