2016-03-26

Sakoot e shab hi sitam ho to ham uthain bhi

سکوتِ شب ہی ستم ہو تو ہم اُٹھائیں بھی

سکوتِ شب ہی ستم ہو تو ہم اُٹھائیں بھی
وہ یاد آئے تو چلنے لگیں ہوائیں بھی
یہ شہر میرے لیے اجنبی نہ تھا لیکن
تمہارے ساتھ بدلتی گئیں فضائیں بھی
جو بزمِ دوست سے اُٹھ کر چلے بزعمِ تمام
کوئی پکارے تو شاید وہ لوٹ آئیں بھی
دلوں کا قرب کہیں فاصلوں سے مٹتا ہے
یہ خود فریب  ترا شہر چھوڑ جائیں بھی
ہم ایسے لوگ جو آشوب ِ دہر میں بھی ہیں خوش
عجب نہیں ہے اگر تجھ کو بھول جائیں بھی
سحر گزیدہ ستاروں کا نور بُجھنے لگا
فراؔز اُٹھّو اب اُس کی گلی سے جائیں بھی
                                احمد فراؔز

No comments:

Post a Comment