ممکن نہیں تھا جو وہ ارادہ نہیں کیا
ممکن نہیں تھا جو وہ ارادہ نہیں کیا
ہم نے تُجھے بھلانے کا وعدہ نہیں کیا
لہجے میں اُس کے رنگ تھا کم اعتبار کا
ہم نے بھی اعتبار زیادہ نہیں کیا
تھے مصلحت کی راہ میں سائے بہت گھنے
پر دل نے اختیار وہ جادہ نہیں کیا
جھولی میں ہم نے بھر لیے فاقے سمیٹ کر
دامن کسی کے آگے کشادہ نہیں کیا
تھے، خاکِ پائے اہلِ محبت، مگر کبھی
سجدہِ بہ پیشِ تاج و لبادہ نہیں کیا
حرمت شناس ِ درد تھے، سو ہم نے عمر بھر
امجدؔ حدیثِ جاں کا اعادہ نہیں کیا
امجد اسلام امجدؔ
No comments:
Post a Comment