لے اُڑا پھر کوئی خیال ہمیں
لے اُڑا پھر کوئی خیال ہمیں
ساقیا ساقیا سنبھال ہمیں
رو رہے ہیں کہ ایک عادت ہے
ورنہ اتنا نہیں ملال ہمیں
خلوتی ہیں ترے جمال کے ہم
آئینے کی طرح سنبھال ہمیں
مرگِ انبوہ ، جشنِ شادی ہے
مل گئے دوست حسبِ حال ہمیں
اختلافِ جہاں کا رنج نہ تھا
دے گئے مات ہم خیال ہمیں
کیا توقع کریں زمانے سے
ہو بھی گر جُرأتِ سوال ہمیں
ہم یہاں بھی نہیں ہیں خوش لیکن
اپنی محفل سے مت نکال ہمیں
ہم ترے دوست ہیں فؔراز مگر
اب نہ اور اُلجھنوں میں ڈال ہمیں
احمد فؔراز
No comments:
Post a Comment