کچھ نہ کچھ عشق کی تاثیر کا اقرار تو ہے
کچھ نہ کچھ عشق کی تاثیر کا اقرار تو ہے
اس کو الزامِ تغافل پہ کچھ انکار تو ہے
سرِ ظلمت کدۂ دہرِ چراغاں کے لئے
گردشِ جام تو ہے محفلِ سرشار تو ہے
سر پٹکنے کو پٹکتا ہے مگر رُک رُک کر
تیرے وحشی کو خیالِ درو دیوار تو ہے
تجھ سے ہمت تو پڑی عشق کو کچھ کہنے کی
خیر شکوہ نہ سہی شکر کا اظہار تو ہے
چونک اُٹھے ہیں فرؔاق آتے ہی اس شوخ کا نام
کچھ سراسیمگئ عشق کا اقرار تو ہے
فراؔق گورکھپوری
No comments:
Post a Comment